5/12/2012

IPC کے زیراہتمام”نومسلموں سے متعلقہ فقہی مسائل “ کے موضوع پر ایک پروگرام

 
IPC میں نومسلم بھائیوں کے لیے مختلف زبانوں میں ہرہفتہ تربیتی کلاسیز منعقد ہوتے ہیں جن سے ان کا ایمان مضبوط ہوتا اور دینی بصیرت حاصل ہوتی ہے ۔ کلاسیز میں جدت لانے کے لیے ہرماہ مختلف نوعیت کے پروگرام بھی منعقدر کئے جاتے ہیں ، چنانچہ حسب روایت گزشتہ ماہ ”نومسلموں سے متعلقہ فقہی مسائل “کے موضوع پر بذریعہ پاورپوائنٹ ایک لکچر پیش کیا گیا جس میں ہندی اورنیپالی زبان کے 25سے زائد نومسلم بھائیوں نے شرکت کی ۔شرکاءمیں جن نومسلم بھائیوں نے اہل خانہ اوردیگر غیرمسلموںتک اسلام پہنچانے میں کلیدی رول ادا کی تھی، انکی ہمت افزائی کے لیے انہیں انعامات سے بھی نوازاگیا۔
 پروگرام کے آغاز میں مولانامحمد شاہ نواز محمدی صاحب نے دعوت کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ:
” اسلام ہی دین حق ہے ، اورجوکوئی اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کا متلاشی ہوگا وہ دنیا وآخرت میں خائب وخاسر رہے گا ، اسلام کی اس بیش قیمت اور گرانقدرنعمت کے سامنے دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ ہیں۔“ پھر آپ نے نومسلم بھائیوں سے گذارش کی کہ” جس طرح آپ اس عظیم نعمت کے سایہ میں زندگی گزار رہے ہیں اسی طرح آپ کے اندر یہ تڑپ پیدا ہونی چاہیے کہ آپ کے اہل خانہ اورآپ کے متعلقین اس نعمت سے مالامال ہوجائیں ۔“
پروگرام کے دوسرے مقرر مولانا صفات عالم محمد زبیرتیمی صاحب نے نومسلموں سے متعلقہ فقہی مسائل کے موضوع پر خطاب فرماتے ہوئے نومسلم بھائیوں کو چند نصیحتیں کیں،اس کے بعد اسلام قبول کرنے کا طریقہ اوراس کے تئیں غلط فہمیوں کا ازالہ کرتے ہوئے فرمایاکہ” اسلام دل کی تصدیق اور زبان سے شہادت دینے کا نام ہے جس کے لیے مجمع عام میں کلمہ پڑھنا بھی ضروری نہیں،اورصحت اسلام کے لیے ختنہ کراناضروری ہے اور نہ گوشت کھانا ۔“ آپ نے مزیدفرمایاکہ ”قبول اسلام کے پہلے ہی دن سے فرائض کی پابندی لازم ہے کہ شہادت دراصل عمل کا تقاضا کرتی ہے۔“ مصلحت کے تحت اسلام کو چند دنوں تک خفیہ رکھنے، غیرمسلم خاندان سے معاملہ کرنے کے حدود سے متعلقہ مسائل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نے میاں بیوی پر قبول اسلام کے اثرات بیان کیاکہ” اگربیوی اہل کتاب ہے تواسلام قبول کئے بغیر ازدواجی زندگی گزاری جاسکتی ہے لیکن اگربیوی کا یا دونوں کا تعلق غیراہل کتاب سے ہے توتین مہینہ کے بیچ میں اگرشوہریا بیوی اسلام قبول کرلیں تو ازدواجی زندگی باقی رہے گی ورنہ رشتہ زوجیت خود بخود ختم ہوجائے گا “۔
آپ نے نومسلم بھائیوں کو ہجرت کرنے کی بھی تاکید کی اور کہا کہ  ” بچوں کی تربیت اور دینی ماحول کی اہمیت کے پیش نظر ہر نومسلم بھائی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے قریبی مسلم علاقے میں بسنے کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی شروع کردے ۔اوراس سلسلے میں پیش آنے والی پریشانیوں کو اسلام کی حفاظت کے لیے انگیز کرے ۔“
آپ نے وراثت سے متعلقہ مسائل کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاکہ” مسلم اورکافر کے بیچ وراثت نہیں ہوتی اس لیے ہمیں اپنی کمائی کی سرمایہ کاری کی طرف ابھی سے دھیان دینا ہے ۔ “ نومسلم بھائیوں کے مختلف سوالات کے جوابات پرپروگرام کا پہلا سیشن ختم ہوا ۔ پروگرام کے دوسرے سیشن میں چند ممتاز نومسلم بھائیوں کو اظہارخیال کی دعوت دی گئی جس کے حاضرین پر گہرے اثرات مرتب ہوئے :
گوا کے عمر بھائی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ: ”میں نے اسلام قبول کرنے کے فوراً بعد اپنی منگیتر کوبذریعہ انٹرنیٹ اسلام کے بارے میں قائل کرنا شروع کیا بالآخر وہ اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہوگئیں،چنانچہ میں نے ان کو کویت بلایا اور IPCکے تعاون سے قبول اسلام کی کاروائی اورشادی کا سارا معاملہ آسان ہوگیا۔ الحمدللہ ابھی ہم اپنی اہلیہ اور د وبچوں کے ساتھ اسلام کے سایہ میں خوشگوارازدواجی زندگی گزاررہے ہیں ۔
بنگلور کے ابراہیم بھائی نے نومسلم بھائیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ ”ہم سب کا دوسرا ٹارگیٹ ہمارے اہل خانہ ہونے چاہئیں۔ الحمدللہ ہماری اب تک کی کوشش سے پچاس سے زائد لوگوں نے اسلام کی سعادت حاصل کی ہے اور ہم نے اسلامی ماحول میں اپنے بچوںکی تربیت کی ہے ، ہمارا بڑا بچہ میڈیکل ،دوسرا انجینیرنگ اور تیسری بچی انٹر کر رہی ہے ۔“
نیپال کے عمر بھائی جن کی پوری فیملی مسلم معاشرے میں ضم ہوچکی ہے اوران کا بڑا لڑکا ازہر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانے والا ہے ۔انہوں نے قبول اسلام کے بعد نیپال کا پہلا سفر کیا تو اپنے گاؤں کے لوگوں کو دعوت دے کر اپنے پاس بلایا اورجب کھانا سے فارغ ہوگئے تو ان کے سامنے نہایت حکمت کے ساتھ اسلام کا تعارف کرایا ،جس کے زیراثر 8 آدمیوں نے اسلام کی سعادت حاصل کی ۔ مستقبل میں ان کی پلاننگ ہے کہ نیپال میں رہ کر غیرمسلموں کو اسلام کی دعوت دیں ۔
بہار کے سہیل بھائی جنہوں نے قبول اسلام کے بعد مسلم گھرانے کی ایک نیک لڑکی سے شادی کی اور ابھی مسلم معاشرے میں رہ رہے ہیں انہوں نے فرمایاکہ” میں نے یتیمی کی حالت میں بچپن گزارا،چچا اورچچی نے بڑی زیادتی کی یہاں تک کہ بچپن سے ہی روزی روٹی کی تلاش میں باہر رہنے لگا، بالآخر اللہ پاک نے کویت میں آنا نصیب فرمایااوریہیں اسلام کی سعادت سے بہرہ ورفرمایا۔“

ليست هناك تعليقات: