12/20/2011

ڈاکٹر عبدالرحمن السميط كي موت كي افواہ

کچھ ویب سائٹس اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ "ٹویٹر" میں ڈاکٹرعبدالرحمن السميط كي بابت يه افواہیں عام هو رهي ہیں كه موصوف امیری ہسپتال میں وفات پا چكے ہیں حالانكه آپ دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے مبارك ہسپتال میں انتہائی نگہداشت وارڈ میں ہیں، امیری ہسپتال میں نہیں. یہ خبر روزنامہ الوطن کویت نے آج کی اشاعت میں دی ہے- اللهم رب الناس اشف الدكتور شفاء عاجلا. أنت الشافي ، لاشفاء إلا شفاءك شفاء لايغادرسقما
اس مناسبت سے ان کی زندگی کا ایک صفحہ آپ کے سامنے رکھ دیتے ہیں
سرزمین کویت کے يه تارک وطن ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط جوکویت کی ایک مشہور رفاہی جمعیت ”جمعیة العون المباشر“ کے بانی اور مؤسس ہیں جو پیشے کے اعتبار سے الصباح ہاسپیٹل میں طبیب تھے لیکن جسمانی علاج کرنے کی بجائے روحانی علاج میں لگ گئے ،جنہوں نے ملازمت کے لیے ترک وطن نہیں کیا بلکہ محض دعوت کے لیے کیا ہے ۔ تیس سال کے عرصہ میں چالیس ممالک کے اندر پچاس لاکھ سے زائد افراد نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ، یہ کوئی خیالی بات نہیں بلکہ امر واقعہ ہے، وزارة الاوقاف کویت کی طرف سے بحیثیت مندوب جب افریقی ممالک کا ایک بار دورہ کیا تو وہاں عیسائی مشینریز کی سرگرمیوں اورارتدادی مہم نے ان کی دینی غیرت کو للکارا، بالآخر علاج ومعالجہ اور کویت کی آرام پسند زندگی کو چھوڑ کر افریقی ممالک کے شہروں، دیہاتوں اور کوردہ علاقوں میں گھوم گھوم کر دعوت کا کام کرنے لگے، کتنے پادریوں اور عیسائی مبلغوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اورعیسائیت کی تبلیغ چھوڑ کر اسلام کے فروغ میں لگ گئے ۔ ڈاکٹر السمیط کی ہمت مردانہ کو سلام کہ متعدد بار ان پر حملہ کیا گیا ،اغوا کرنے کی کوششیں   ہوئیں ،ذیابیطس کے مسلسل مریض ہیں، تین بارسراوردل کا دورہ پڑا ، لیکن جنت کی جستجو میں نہ دشمنوں کا خوف ہے نہ بیماری کا احساس۔ اس مرد مجاہد نے دعوت کے لیے اپنی زندگی کیوں وقف کی اس سلسلے میں ان کا کہنا ہے کہ بعض نومسلموں نے قبول اسلام کے بعد مجھ سے شکایت کی کہ” اے مسلمانو! تم کہا ں تھے ،تم نے اتنے دنوں تک اسلام ہم تک کیوں نہ پہنچایا یہاں تک کہ ہمارے والدین کفرپر مرچکے ، کاش کہ تم نے اس وقت ہمیں اسلام کی دعوت دی ہوتی جب کہ ہمارے والدین باحیات تھے“ ۔

ليست هناك تعليقات: